اسلام آباد: عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے مشترک اپوزیشن کا انتظار ہفتے کی نصف شب کے بعد ختم ہوا جب حکمراں جماعت کے تمام غیر آئینی حربے شکست سے دوچار ہوگئے اور قومی اسمبلی نے وزیراعظم اور قائد ایوان پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔
عدم اعتماد کی قرارداد 174 ووٹوں سے کامیاب رہی جب کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے کم از کم 172 ووٹ درکار تھے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکان ووٹنگ کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی کارروائی چھوڑ کر چلے گئے۔
جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی کارروائی میں شریک نہیں ہوئے۔
12 بج کر 59 منٹ پر ووٹنگ کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے سردار ایاز صادق نے کہا کہ ‘عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد ایوان کی کل اراکین کی اکثریت سے منظور کر لی گئی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ اس تاریخی موقع پر نواز شریف کی عدم موجودگی محسوس ہو رہی ہے۔
عمران خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بھی بن گئے جو مشترکہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا شکار ہوئے۔ وہ 176 ووٹوں کے ساتھ ملک کے 22 ویں وزیر اعظم کے طور پر منتخب ہوئے، اور جب انہوں نے بعد میں ایوان سے اعتماد کا ووٹ طلب کیا تو انہوں نے 178 ووٹ حاصل کیے۔
پی ایم ایل این کے ارکان اسمبلی نے اللہ اکبر اور شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے حق میں نعرے لگائے۔
پی ٹی آئی کے منحرف ارکان میں سے کسی نے بھی ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا اور اس طرح ان کی نااہلی ٹل گئی۔
اسد قیصر کی جانب سے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے سے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کے دوران ایوان کی کارروائی کی سربراہی پینل آف چیئرمین سے سابق اسپیکر سردار ایاز نے کی اور عمل شروع کرنے کے لیے پی ایم ایل این کے رکن پارلیمنٹ کو نشست سنبھالنے کی دعوت دی۔
اسی دوران قاسم سوری نے بھی قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
اسد قیصر کے مستعفی ہونے کا اعلان ہوتے ہی پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر اور باہر جشن کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ووٹنگ شروع ہوگئی۔ قومی اسمبلی کا ہال ’’شیر شیر‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔
عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ 9 اپریل کو نہیں ہوسکی کیونکہ اسپیکر سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہے اور انہوں نے استعفیٰ دینے کا انتخاب کیا۔
اس طرح ووٹنگ کے لیے نئی کارروائی 10 اپریل کی صبح 12:02 بجے شروع کی جانی تھی جس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔
ہفتہ کی صبح ساڑھے 10 بجے ایوان کی کارروائی شروع ہونے کے بعد اپوزیشن بنچوں کے احتجاج اور چار بجے تک ایوان کی کارروائی معطل رہی۔
اسد قیصر وزیراعظم ہاؤس میں عمران خان سے ملاقات کےبعد مقررہ تاریخ سے چند منٹ قبل قومی اسمبلی ہال پہنچے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے دھمکی آمیز خط ان کے ساتھ شیئر کیا اور قانون سازوں سے کہا کہ وہ ملک کی خودمختاری کے لیے کھڑے ہوں۔
اسد قیصر نے شہباز شریف کو خط پڑھنے کو بھی کہا اور کہا کہ وہ اسے چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ مزید اسپیکر کی نشست پر نہیں رہ سکتے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمان بھی شہباز شریف کو مبارکباد دینے کے لیے ان کے چیمبر پہنچے۔ “یہ فتح کا دن ہے۔ قوم کو مبارک ہو، “پی ڈی ایم سربراہ نے کہا۔
بعد ازاں وہ عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کا نتیجہ سننے کے لیے مہمانوں کی گیلری میں بھی پہنچے۔